نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہے!
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہے!
بتوں سے تجھ کو اميديں ، خدا سے نوميدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کيا ہے!
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھيں
خبر نہيں روش بندہ پروری کيا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فيصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ ميں شوخی تو دلبری کيا ہے
اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کيا ہے
کسے نہيں ہے تمنائے سروری ، ليکن
خودی کی موت ہو جس ميں وہ سروری کيا ہے
وگرنہ شعر مرا کيا ہے ، شاعری کيا ہے
Comments
Post a Comment